دمشق/تہران،5جنوری(آئی این ایس انڈیا)شام کے مطلق العنان صدر بشارالاسد نے ملک میں جاری جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر عوام کے قتل عام کو فراموش کرتے ہوئے باغیوں کی شکست کو اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے، انہوں نے شام میں اپنی مزعومہ فتوحات کو ایران کی بھی فتوحات قرار دیتے ہوئے تہران کو مبارک باد پیش کی ہے۔ مگر دوسری طرف شام کے تنازع کے حل کے لیے ترکی اور روس کے درمیان بڑھتی قربتیں ایران کو برداشت نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہران سرکار نے شام کے معاملے کے سیاسی حل کے لیے ترکی اور روس کی مساعی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
حال ہی میں ایرانی قومی سلامتی وخارجہ پالیسی کمیٹی کے سربراہ علاء الدین بروجردی کی قیادت میں ایک پارلیمانی وفد نے دمشق میں صدر بشارالاسد سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر اسد نے ایرانی ارکان شوریٰ کو شام میں اپنی فتوحات کی تفصیلات بتائیں اور انہیں مبارک باد پیش کی۔ایرانی وفد ایک ایسے وقت میں دمشق پہنچا ہے جب روس اور ترکی شام میں امن مذاکرات کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماسکو اور انقرہ کی مساعی پر ایران کو سخت تشویش ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کی جانب سے روس اور ترکی کے کردار پر تنقید ایرانی ناراضگی کا واضح ثبوت ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کزاکستان کے صدر مقام آستانہ میں مجوزہ شامی مذاکرات کے انعقاد کو روکنے کے لیے ایران پوری طرح کوشش کررہا ہے۔ ان مذاکرات میں شامی اپوزیشن کو شرکت کا موقع دیاجائے گا مگر ایران نہ صرف ان مذاکرات کو منعقد ہونے سے روکنے کی سازش کررہا بلکہ اپنے غیر سرکاری اجرتی قاتل شام میں مستقل طور پر رکھتے ہوئے شام میں اپنی عسکری بالادستی کے قیام کا بھی خواہاں ہے۔ تہران کو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اگر ترکی اور روس نے مل کر شام کے تنازع کا کوئی درمیانہ حل نکالا تو اس میں ایران کا کوئی موثر کردار نہیں ہوگا۔
آستانہ مذاکرات کو شام میں تنازع کے حل کا ایک نیا باب قرار دیا جا رہا ہے مگر ایرانی ایجنٹ شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ صدر بشار الاسد کے جنگی طیارے مسلسل بمباری کررہے ہیں جس کے نتیجے میں امن بات چیت کھٹائی میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ایران نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ شام سے حزب اللہ کو باہر نکالنے کا سخت مخالف ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر علی اکبر ولایتی کا کہنا ہے کہ شام سے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو باہر نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آستانہ مذاکرات میں روس اور ترکی کے کردار کو محدود کرنے کے لیے ایران شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں ہوا دے رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ایران کا غیر سرکاری ملیشیاؤں کو شام میں موجود رکھنے پر اصرار ہے۔ حال ہی میں ترکی کی جانب سے ایران سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیرسرپرستی عسکری گروپوں کو شامل سے باہر نکالنے کے اقدامات کرے تاکہ شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں روکا جا سکے۔
ایرانی ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے درمیان تین روز قبل ہونے والی گفتگو کو احوال بیان کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر روحانی نے روسی ہم منصب پر واضح کیا ہے کہ شام میں معاہدہ جنگ بندی میں تہران کی مساعی بھی شامل ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر کا یہ موقف ایک ڈھکی چھپکی دھمکی ہے کہ اگر اس نے شام میں جنگ بندی معاہدے میں تعاون نہ کیا تو یہ سمجھوتہ ٹوٹ سکتا ہے۔